آنٹی روز میری بہن کو اپنے گھر لے کر جاتی تھی ایک دن مجھے شک ہوا اور میں آنٹی کے گھر دیکھنے گئی تو دیکھا کہ آنٹی نے میری بہن کو دونوں ۔۔

             


 میں اس ڈھیر کے قریب ایک سڑک کے کنارے پیڑ کے نیچے برسوں

 سے زندگی بسر کر رہی ہوں شاید میرے دکھ میرے غم اس پیڑ سے نہیں دیکھے جاتے اسی لیے یہ بھی میرے ساتھ روتا ہے بتاتی چلوں میرا گھر کوئی نہیں ے سڑک کنارے ہی درخت میرے لیے چھت اور گھر کا کام کرتا ہے۔

لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں میری ویران زندگی پر ہنستے ہیں میرا تماشہ بنا تے ہیں اور اپنے لیے تفریح کا سا مان پیدا کرتے ہیں میں انہیں کیسے بتاؤں کہ میں پاگل نہیں ہوں دیوانی نیں ہوں بلکہ خود جان بوجھ کر پاگل بنی ہوئی ہوں کبھی ہنستی ہوں تو کبھی روتی ہوں میں ک۔چرے کے ڈھیر سے اپنے لیے ضروریات زندگی کی تلاش کرتی ہوں۔

لوگ اپنے بو سیدہ کپڑے یہاں پھینک جاتے یں وہ میرے کام آ جاتے ہیں ۔ لوگوں کا بچا ہوا کھانا کھا کر اپنا پیٹ بھرتی ہوں اور جب کسی سفید پوش کی میلی نظر مجھ پر پڑتی ہے تو سہی جاتی ہوں ک۔چرے کا ڈھیر میرے لیے امان مہیا کرتا ہے میں اس ک۔چرے کے ڈھیر پر اپنی عزت بچاتی ہوں۔

کیو نکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ سفید پوش من کے میلے ہونے کی فکر نہیں کرتے لیکن سفید کپڑوں کی انہیں بہت فکر ہوتی ہے۔ انہیں صرف یہی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ان کے کپڑوں پر داغ نہ لگ جائے اس لیے میرے میلے بدن سے اٹھتی ہوئی بو انہیں دور کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے ورنہ یہ سفید پوش کب کے مجھے نوچ چکے ہوتے۔ جب میں نے اس دنیا میں آنکھ کھو لی تو غربت اور جہا لت میری منتظر تھی ابا محنت کش تھا مگر ن۔ش۔ے کی ل۔ت میں مبتلا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کو خراب کر رکھا تھا۔جس سے وہ محنت مزدوری کم کرتا اور ن۔ش۔ہ زیادہ یوں گھر میں غریبت اور تنگ دستی نے گھیر ے ڈال دیے۔

ہر وقت آٹا گھی چینی نہ ہونے پر اماں ابا میں جھگ۔ڑا ہوتا فاقوں سے تنگ آکر اماں ابا سے نہ لڑتی تو اور کیا کرتی دن بھر گھر سے باہر رہنے والا شوہر جب شام کو ن۔ش۔ے میں گھر آتا تو اس کے دکھ کا اندازہ صرف اس کی بیوی بچوں کو ہی ہو سکتا ہے دوسرے لوگ تو محض ہنستے ہیں تما شا دیکھتے ہیں اماں او ر ابا لڑتے تو محلے دار دیواروں سے کان لگا کر سنتے یا جھا نک کر دیکھتے ۔ میرا بڑا ہونا کسی عذاب سے کم ثابت ہوا۔ ابا اپنا غصہ مجھ پر اتارنے لگے جب بھی اماں ابا میں جھگڑا ہوتا اماں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی م۔ارتے میں خاموشی سے م۔ار کھا کر ایک کو نے میں بیٹھ جاتی اور میری گود میں میرا چھوٹا بھائی ہوتا تھا جو اکثر بیمر رہتا ایک روز مجاہد کو سخت بخار تھا۔

اماں اور میں اسی سوچ میں پریشان تھے کہ اس کی دوائی کے لیے پیسوں کا بندوبست کہاں سے کریں۔ محلے والوں سے تو مدد کا کوئی آسرا نہیں تھا کبھی چینی کبھی نمک کبھی مرچ مانگنے پر بھی غصہ ہی دکھاتے تھےان سے پیسوں کی توقع کیسے کرتے پھر بھی امی جان ایک دو محلے کی عورتوں کے پاس گئی مگر کسی نے مدد نہ کی اور اسی وقت ما سی نوراں آ گئی اس نے مجاہد کی حالت دیکھ کر امی سے کہا دیکھو دینہ بیٹی میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ مجا ہد کو شہر کے کسی بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ مگر تم سنتی ہی کب ہو۔ اماں نے ایک سرد اہ بھر کر کہا تجھے پتا تو ہے ہمارے پاس تو کھانے کے لالے پڑے ہیں مجاہد کے علا ج کے لیے میں کہاں سے پیسے لاؤں میں نے تجھے بہت سمجھا یا ہے کہ میری بات مان لیں مگر تو ہی اپنی ضد پر ہے اب تیرا یہ بچہ کیسے ٹھیک ہوگا اور گھر کے حالات یہ کیسے ٹھیک ہوں


گے روز روز کے لڑائی جھگڑے میں اپنی زندگی تباہ و برباد نہ کر اور نہ ہی اپنے معصوم بچوں پر ظ۔لم کر میری بات مان لے اور ہاں کر لے ماسی نوراں کی بات سن کر اماں کو پسینہ آ نے لگا ۔اس کے ہونٹ کا ن۔پن۔ے لگے۔ میرے طرف دیکھ کر بولی شازو تم منے کے لیے ٹافیاں لا شاید یہ چپ ہو جائے۔ یہ کہہ کر اس نے مجھے پیسے دینا چاہے مگر اس سے پہلے ہی ماسی نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ پر دس روپے رکھ دیئے۔

Comments