آنٹی روز میری بہن کو اپنے گھر لے کر جاتی تھی ایک دن مجھے شک ہوا اور میں آنٹی کے گھر دیکھنے گئی تو دیکھا کہ آنٹی نے میری بہن کو دونوں ۔۔
میں اس ڈھیر کے قریب ایک سڑک کے کنارے پیڑ کے نیچے برسوں سے زندگی بسر کر رہی ہوں شاید میرے دکھ میرے غم اس پیڑ سے نہیں دیکھے جاتے اسی لیے یہ بھی میرے ساتھ روتا ہے بتاتی چلوں میرا گھر کوئی نہیں ے سڑک کنارے ہی درخت میرے لیے چھت اور گھر کا کام کرتا ہے۔ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں میری ویران زندگی پر ہنستے ہیں میرا تماشہ بنا تے ہیں اور اپنے لیے تفریح کا سا مان پیدا کرتے ہیں میں انہیں کیسے بتاؤں کہ میں پاگل نہیں ہوں دیوانی نیں ہوں بلکہ خود جان بوجھ کر پاگل بنی ہوئی ہوں کبھی ہنستی ہوں تو کبھی روتی ہوں میں ک۔چرے کے ڈھیر سے اپنے لیے ضروریات زندگی کی تلاش کرتی ہوں۔ لوگ اپنے بو سیدہ کپڑے یہاں پھینک جاتے یں وہ میرے کام آ جاتے ہیں ۔ لوگوں کا بچا ہوا کھانا کھا کر اپنا پیٹ بھرتی ہوں اور جب کسی سفید پوش کی میلی نظر مجھ پر پڑتی ہے تو سہی جاتی ہوں ک۔چرے کا ڈھیر میرے لیے امان مہیا کرتا ہے میں اس ک۔چرے کے ڈھیر پر اپنی عزت بچاتی ہوں۔ کیو نکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ سفید پوش من کے میلے ہونے کی فکر نہیں کرتے لیکن سفید کپڑوں کی انہیں بہت فکر ہوتی ہے۔ انہیں صرف یہی فکر ہوتی ہے کہ کہیں ان کے کپڑوں پر داغ